یہود کہتے ہیں کہ مسلمان دن میں کم از کم پانچ بار" صَلَاة " میں ان پر رحمت کی دعا کرتے ہیں اور کچھ مسلمان سمجھتے ہیں کہ درود میں "آل محمد " کا مطلب صرف "اہل بیت " رسول اللہ ﷺ کے گھر والے ہیں اور اس میں بھی اختلاف ہے کہ گھر والے کون کون ہیں؟ دیکھتے ہیں کہ قرآن و سنت کیا کہتے ہیں-
اللہ کا فرمان ہے:
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (33 :الأحزاب آیت نمبر 56)
بیشک الله اور اس کے فرشتے نبی پر صلوٰۃ (درود, blessing) بھیجتے ہیں، اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اس پر (صلوٰۃ بھیجو اور سلام بھیجو، خوب سلام بھیجنا۔ (مولانا عبد السلام بھٹوی )
اس پر آپ صلی علیہ وسلم کی طرف سے "درودابراہیمی" رکمینڈ کیا گیا جس پر یہود کو غلط فہمی ہوئی کہ ان پر دعا ہے-
*صلوات (درود) (یہود کے لیئے دعا نہیں) مگر اسلامی عقیدے کے اعتبار سے انتہائی اہم ہے۔ اکثر مفسرین "صلوات" کا ترجمہ "درود" کرتے ہیں۔
"صلوات" اصل اور قرآنی اصطلاح ہے۔
"توف" ایک فارسی لفظ ہے جو تعریف و ثنا کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
فارسی گو مسلمانوں نے عربی لفظ "درود" (جو درحقیقت فارسی میں بھی سلامتی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے) فارسی/اردو بولنے والے مسلمانوں نے ایک خوبصورت مرکب بنا لیا: "درود توف"۔
اس مرکب کے معنی ہوئے "درود اور تعریف/ثنا"۔ یعنی یہ ایک جامع اصطلاح بن گئی جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سلامتی کے ساتھ ساتھ آپ کی تعریف و ثنا بھی شامل ہے۔
 اس لیے جب آپ "درود توف" کہتے ہیں تو درحقیقت آپ عربی اور فارسی کے دو الفاظ کو ملا کر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک جامع ادب و احترام کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔ رفتہ رفتہ   "توف"متروک ہوگیا اور صرف "درود" رہ گیا۔ 
@"آل" کالفظ قرآن میں امت یا فالورز ، پیروکاروں کے لیئےہےیہ 31 مرتبہ استعمال ہوا جیسے آل فرعون 8:54، ،50،2:49- 3:11،7:147. پیغمبروں کی فرمانبرداراولاد اس میں شامل ہے کہ وہ بھی امتی ہیں۔ لیکن نافرمان نسل نکل جاتی ہے جیسے حضرت لوط، نوح کی بیوی یا بچے۔
۱. یہ انبیاء کا ذکر ہے، ان کی بعد کی نا فرمان امتوں کا نہیں
درود میں حضرت ابراہیم اور حضرت محمد (دونوں پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں) اور اور ان کے سچے پیغام پر چلنے والوں پر رحمت بھیجی جا رہی ہے۔
مسیح نے یہودی رہنماؤں سے کہا،جو اپنے آپ کو ابراہیم کی اولاد ہونے پر فخر کرتے تھے، لیکن ان کے اعمال ابراہیم کے اعمال کے برعکس تھے۔
مسیح نے ان سے کہا: "اگر تم ابراہیم کے بیٹے ہو تو ابراہیم کے کام کرو۔ مگر تم تو مجھے جو خدا کی طرف سے سچائی کی تعلیم دے رہا ہوں مار ڈالنا چاہتے ہو۔ ابراہیم نے ایسا نہیں کیا۔" (یوحنا 8:39-40)
وَقَالُوۡا کُوۡنُوۡا هُوۡدًا اَوۡ نَصٰرٰى تَهۡتَدُوۡا ؕ قُلۡ بَلۡ مِلَّةَ اِبۡرٰهٖمَ حَنِيۡفًا ؕ وَمَا كَانَ مِنَ الۡمُشۡرِكِيۡنَ ۞
یہودی کہتے ہیں: یہودی ہو تو راہ راست پاؤ گے عیسائی کہتے ہیں: عیسائی ہو، تو ہدایت ملے گی اِن سے کہو: "نہیں، بلکہ سب کو چھوڑ کر ابراہیمؑ کا طریقہ اور ابراہیمؑ مشر کو ں میں سے نہ تھا۔(القرآن - سورۃ نمبر 2 البقرة،آیت نمبر 135)
مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ صرف نسبی تعلق ہی اہم نہیں، بلکہ ابراہیم کی طرح ایمان اور نیک اعمال بھی ضروری ہیں۔ ابراہیم نے اللہ کی آواز ماننی اور اس پر ایمان لانا سکھایا، جبکہ یہودی رہنما اللہ کے بیٹے (جیسا مسیحی سمجھتے ہیں )کو سزاِ موت دینا چاہ رہے تھے۔
مَا كَانَ اِبۡرٰهِيۡمُ يَهُوۡدِيًّا وَّلَا نَصۡرَانِيًّا وَّ لٰكِنۡ كَانَ حَنِيۡفًا مُّسۡلِمًا ؕ وَمَا كَانَ مِنَ الۡمُشۡرِكِيۡنَ ۞
ابراہیمؑ نہ یہودی تھا نہ عیسائی، بلکہ وہ ایک فرمانبردار یکسو تھا(مسلم) اور وہ ہرگز مشرکوں میں سے نہ تھا (القرآن - سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 67)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کوئی "یہودی" یا مسیحی شخصیت نہیں ہیں:
اسلام میں، حضرت ابراہیم علیہ السلام کو توحید کا اولین بانی (حنیف) سمجھا جاتا ہے۔ آپ یہودیت اور عیسائیت جیسے مذاہب کے قیام سے بہت پہلے موجود تھے۔ آپ تمام موحدین — مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں — کے روحانی باپ ہیں۔ لہٰذا، یہ دعا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پاکیزہ، اصل توحید پر ہے، نہ کہ بعد میں آنے والے کسی مخصوص مذہبی گروہ پر۔
· حضرت ابراہیم علیہ السلام کا "خاندان":
اس میں آپ کے وہ "صالح اولاد" شامل ہیں جو خود بھی نبی تھے، جیسے حضرت اسحٰق، حضرت یعقوب اور حضرت یوسف علیہم السلام۔ اسلام کی نظر میں، یہ سب کے سب اللہ کے نبی تھے جنہوں نے اس کی فرمانبرداری اختیار کی (یہی "مسلم" کا مفہوم ہے)۔
۲. دعا ہدایت کے لیے ہے، گمراہی کے لیے نہیں
جب ہم کہتے ہیں، "جیسا کہ تو نے ابراہیم اور ان کی آل پر رحمت بھیجی"، تو ہم اللہ سے دعا گو ہیں کہ وہ ہم پر اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر اسی پاکیزہ انداز میں رحمت نازل فرمائے جس طرح اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے نیک خاندان اور فالورز پر نازل فرمائی تھی۔
ہم اللہ سے کسی بھی گروہ کی بعد میں پیدا ہونے والی تحریفات، غلطیوں یا غلط کاموں پر رحمت نازل کرنے کی درخواست نہیں کر رہے۔ ہم نبوت، تقویٰ اور سچے ایمان کی اس برکت کے طلبگار ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے فوری نیک جانشینوں کو عطا کی گئی تھی۔
۳. محمد صلی اللہ علیہ وسلم، ابراہیم علیہ السلام کے مشن کے مکمل کرنے والے تھے
حضرت ابراہیم اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ایک گہرا روحانی تعلق ہے:
· توحید کی تجدید:
دونوں انبیاء کریم ایک اللہ کی خالص عبادت قائم کرنے کے لیے تشریف لائے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کے بتوں کو توڑا، اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ سے بتوں کو نکالا، جس کی بنیاد دراصل حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام نے رکھی تھی۔
· حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ایک دعا کا قبول ہونا:
قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام نے کعبہ کی تعمیر کے دوران یہ دعا کی تھی:
"اے ہمارے رب! انہی میں سے ان کے پاس ایک رسول بھیج جو انہیں تیری آیتیں پڑھ کر سنائے، اور انہیں کتاب و حکمت سکھائے اور انہیں پاک کرے..." (البقرہ: 129)
مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اسی دعا کا براہ راست جواب ہیں۔ اس دعا میں دونوں انبیاء کا ذکر ملا کر، ہم اس پوری ہونے والی پیشین گوئی اور توحید کے اس غیر منقطع سلسلے کا اعتراف کرتے ہیں۔
۴. نبوت میں عالمگیر بھائی چارے کا پیغام
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر ہماری روزانہ کی صلوات (نمازوں) میں شامل کرنا ایک مستقل یاد دہانی ہے کہ اسلام کوئی نیا یا اجنبی مذہب نہیں ہے۔ یہ وہی ابدی پیغام ہے جس کی تمام انبیاء، بشمول حضرت ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام نے تبلیغ کی، جس کی آخری، مکمل اور کامل شکل ہے۔
یہ formulation پچھلے تمام انبیاء کے لیے یکساں احترام اور عقیدت کا جذبہ پروان چڑھاتی ہے، جو کہ ایک بنیادی اسلامی عقیدہ ہے۔ ایک مسلمان کو ان سب پر ایمان لانا ضروری ہے۔
مختصر درود (Short Darood)
عام گفتگو یا تحریر میں جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام آتا ہے تو صرف اتنا کہا جاتا ہے:
صَلَّى ٱللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اللہ کی رحمتیں اور سلامتی ہو ان پر
خلاصہ: نقطہ نظر کی وضاحت
خلاصه یہ کہ صلوات (درود) آج کے کسی بھی مذہبی یا نسلی گروہ کے طور پر "یہودیوں" پر رحمت نہیں بھیج رہا۔ بلکہ یہ:
1. توحید کے بانی، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعظیم ہے۔
2. نبوت کے اس سلسلے کی تصدیق ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر منتہی ہوا۔
3. اسی پاکیزگی اور طاقت کی برکتوں کا سوال ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نیک خاندان اور ان کے دور کے صحیح پیروکاروں( آل) کو عطا کی گئی تھی۔
یہ اسلامی عقیدے کی ایک طاقتور توثیق ہے کہ تمام سچے نبیوں نے اللہ کی وحدانیت کے یکساں بنیادی پیغام کی تبلیغ کی، اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس عظیم سلسلے کی آخری کڑی تھے۔
@ لفظ "آل" کا معنی
قرآن و حدیث میں لفظ "آل" کا استعمال صرف خونی رشتہ داروں تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس میں پیروکار اور منسلک افراد بھی شامل ہیں۔ غیر مسلم اولاد وارثت سے محروم ہو جاتی ہے .
 مثال "آلِ فرعون" اس کی واضح دلیل ہے۔
1. قرآن مجید میں "آل" کا مفہوم
الف: آل فرعون کی مثال
قرآن میں"آلِ فرعون" سے مراد صرف اس کا خاندان نہیں بلکہ اس کے پیروکار اور حامی ہیں۔
· سورہ البقرہ آیت 49: "وَإِذْ نَجَّيْنَاكُمْ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ"
· ترجمہ: "اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے تم کو فرعون والوں (آلِ فرعون) سے نجات دی جو تم پر برے عذاب ڈھاتے تھے۔"
· یہاں "آلِ فرعون" سے مراد فرعون کے ظالم حلقے اور اس کی حکومت کے کارندے ہیں، نہ کہ صرف اس کے اہلِ خانہ۔
· سورہ اعراف آیت 130: "وَلَقَدْ أَخَذْنَا آلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِينَ"
· ترجمہ: "اور بے شک ہم نے فرعون والوں (آلِ فرعون) کو قحط کے سالوں میں پکڑا۔"
(قرآن : 8:54، 2:49،،2:50، 3:11، 7:147)
· یہ عذاب پوری قوم پر آیا تھا جو فرعون کی پیروی کرتی تھی۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ "آل" کا لفظ کسی شخص یا گروہ کے "حامیوں، پیروکاروں اور اس سے منسلک لوگوں" کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔
دیگر مثالیں
· "آلِ لوط" سے مراد حضرت لوط علیہ السلام کے اہل خانہ ہیں، لیکن اس میں وہ بیٹیاں شامل تھیں جو ان پر ایمان لائی تھیں، جبکہ ان کی بیوی شامل نہ تھی جو کافر تھی۔
· "آلِ یاسین" (سورہ الصافات: 130) سے مراد حضرت الیاس علیہ السلام کی قوم کے لوگ ہیں۔
· "آلِ ابراہیم" سے مراد ان کے پیرو اور انبیاء ہیں۔
حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے کا واقعہ
سورہ ہود آیت 45-46 میں یہ واقعہ بیان ہوا ہے:
وَقَالَ نُوحٌ رَّبِّ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَأَنتَ أَحْكَمُ الْحَاكِمِينَ۔ قَالَ يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ فَلَا تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنِّي أَعِظُكَ أَن تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ
ترجمہ:
"اور نوح نے کہا:اے میرے رب! بے شک میرا بیٹا میرے اہل (خاندان) میں سے ہے اور بے شک تیرا وعدہ حق ہے اور تو سب حاکموں سے بہتر حاکم ہے۔ اللہ نے فرمایا: اے نوح! بے شک وہ تیرے اہل میں سے نہیں ہے۔ بے شک اس کا عمل ناپاک ہے، پس تو مجھ سے ایسی چیز کے بارے میں سوال نہ کر جس کا تجھے علم نہیں، میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ تو جاہلوں میں سے نہ ہو۔"
اس واقعے سے ثابت ہونے والے اہم نکات:
1. خونی رشتہ ہی کافی نہیں:
· حضرت نوح کا بیٹا ان کا حقیقی بیٹا تھا، یعنی خونی رشتہ موجود تھا۔
· لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا کہ "وہ تیرے اہل میں سے نہیں ہے"۔
2. "اہل" اور "آل" کا اصل معیار:
· اس سے ثابت ہوتا ہے کہ "اہل" یا "آل" ہونے کا اصل معیار خونی رشتہ نہیں بلکہ ایمانی و فکری وابستگی ہے۔
· حضرت نوح کا بیٹا باپ کے دین اور راستے پر نہیں تھا، اس لیے وہ ان کے "اہل" میں شمار نہیں ہوا۔
3. "آل" کا صحیح مفہوم:
· یہ واقعہ ہمارے پہلے بیان کی مکمل تصدیق کرتا ہے کہ:
· "آل" میں وہی لوگ شامل ہوتے ہیں جو عقیدے، عمل اور وابستگی میں اس شخص/نبی کے ساتھ ہوں۔
نتیجہ:
حضرت نوح کا بیٹا ان کے "آل" میں شامل نہیں تھا، حالانکہ وہ ان کا حقیقی بیٹا تھا۔ اس سے لفظ "آل" کے وسیع اور حقیقی مفہوم کی مزید تصدیق ہوتی ہے:
"آل" ہونے کے لیے محض خونی رشتہ کافی نہیں، بلکہ ایمانی، فکری اور عملی وابستگی ضروری ہے۔
یہی وجہ ہے کہ:
· فرعون کی بیوی آسیہ رضی اللہ عنہا فرعون کے "آل" میں شمار نہیں ہوتیں، حالانکہ وہ اس کی بیوی تھیں۔
· حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی ان کے "آل" میں شامل نہیں تھی، کیونکہ وہ ان کے دین پر نہیں تھی۔
2. حدیث میں "آل" کا مفہوم
حدیث میں لفظ "آل" کا استعمال بھی اسی وسیع مفہوم میں ہوا ہے اگرچہ یہ اہل بیت کے لیے بھی مستعمل ہے۔
آل محمد ﷺ کا مفہوم: "آل محمد ﷺ"سے مراد درج ذیل ہیں:
1. ازواج مطہرات اور خصوصی طور پر حضرت فاطمہ الزھرا ، حضرت علی ، حسن و حسسین (رضی اللہ عنہم ) کو رسول اللہ ﷺ نے شامل کیا .
2. خاص طور پر وہ لوگ جن پر صدقہ حرام ہے، یعنی بنی ہاشم کے خاندان۔
3. امتی: بعض احادیث میں "آل محمد" سے مراد ان کی امت کے نیک لوگ بھی لیے گئے ہیں (سنن الکبری البیهقی حدیث : ، 2873، 2869 ، 19167), (کنزل اعمال 5624، طبرانی فی الاوسط عن انس) , (سنن الترمذی (جلد 5، کتاب التفسیر، باب سورة التوبة)
ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"بے شک آل محمد کسی بھی شخص کے (خصوصی) دوست نہیں ہیں، بلکہ ان کے دوست صرف متقی لوگ ہیں۔" پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: "بے شک اللہ کے دوستوں پر نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔" (سورہ یونس: 62)
حدیث کی وضاحت اور اہمیت:
1. مفہوم کی وضاحت: اگر اس کے مفہوم پر غور کیا جائے تو اس کا مقصد یہ ہے کہ صرف خاندان یا نسب کا تعلق ہی کسی کو نجات دلانے کے لیے کافی نہیں ہے۔ نجات کا انح صار تقویٰ اور نیک اعمال پر ہے۔ یہ بات قرآن مجید کے اس فرمان کے عین مطابق ہے:
اس لیئے یہ درست ہے: "إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ" (سورہ الحجرات: 13)
"بے شک تم میں سے اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے۔"
حدیث کی سند ضعیف بھی ہو مگر قرآن سے مطابقت اس کے ضعف کو دور کردیتی ہے۔ اور دوسری روایات گو سنداً قوی تر ہیں، لیکن قرآن کے ظاہر بیان سے عدم مطابقت ان کو ضعیف کردیتی ہے (تفہیم القرآن، سید ابو اعلی مودودی، تفسیر،الحج، 22:1 نوٹ 1 )
3. "آل محمد" کے مختلف مفہوم:
یہ حدیث "آل محمد" کے ایک خاص پہلو (تقویٰ کی اہمیت) پر زور دیتی ہے، لیکن شرعی نصوص میں "آل بیت" کی اصطلاح کا استعمال بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب وغیرہ کے لیے بھی ہوا ہے، جن پر صدقہ حرام ہے۔
خلاصہ اور اصلاح:
· اس کا بنیادی مفہوم (کہ نجات صرف تقویٰ پر ہے) قرآن و سنت کے دیگر واضح دلائل سے ثابت ہے۔
ب: دعاؤں میں "آل" کا استعمال
ہم نماز میں درود پڑھتے ہیں:"اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ"
· اس میں "آل محمد" سے مراد آپ ﷺ کے اہل بیت اور آپ کے پیروکار دونوں شامل ہیں۔
نتیجہ اور خلاصہ
1. لفظ "آل" کا بنیادی مفہوم: یہ لفظ وسیع معنی رکھتا ہے ؛ کسی شخص یا گروہ سے تعلق، وابستگی اور انتماء کو ظاہر کرتا ہے۔
2. خونی رشتہ ضروری نہیں: جیسا کہ "آل فرعون" سے واضح ہے، اس میں خونی رشتہ داروں کے علاوہ حامی، پیروکار اور ملازم سب شامل ہیں
قرآنی تصدیق: قرآن نے خود "آل" کے اس وسیع مفہوم کو ثابت کیا ہے جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا .
4. حدیث میں تطبیق:
احادیث میں بھی "آل" کا استعمال اسی وسیع مفہوم میں ہوا ہے، خاص طور پر "آل محمد ﷺ" میں اہل بیت اور امت دونوں شامل ہیں۔
لہٰذا، یہ کہنا درست ہے کہ قرآن و حدیث کے مطابق "آل" میں صرف فیملی ممبرز ہی نہیں، بلکہ فالورز (پیروکار) اور وابستہ افراد بھی شامل ہیں.
اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و سنت کی صحیح تفہیم کی توفیق عطا فرمائے۔
*صلواتSource: Lane's Arabic-English Lexicon *
[in the Kur xxxiii. 56], إِنَّ اللّٰهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِىِّ, the verb does not import two meanings; for it has there only one meaning, which is “ magnification ”
[i. e. these words mean Verily God and his angels magnify the Prophet; or rather I would render them, bless the Prophet, as this rendering implies magnification and also a meaning of the quasi-inf. n. given in the M and K, which is “ eulogy,” or “ commendation,” bestowed by God upon his apostle, while it imports God's conferring of blessing ” and the angels' “ invoking thereof ” ]: (Msb
He prayed, supplicated, or petitioned: (S, M, K:) and [particularly] he performed the divinely-appointed act [of prayer commonly] termed صَلَاة or صَلٰوة. (S.) Hence, in the Kur [ix. 104], (TA,) وَصَلِّ عَلَيْهِمْ And pray thou for them. (Msb, TA.) صَلَّى عَلَى
https://arabiclexicon.hawramani.com/%d8%b5%d9%84%d9%88/?book=50
آلٌ اللّٰهِ وَرَسُولِهِ
In the phrase آلٌ اللّٰهِ وَرَسُولِهِ, meaning The friends, or the like, (أَوْلِيَآء K, TA,) and the assistants, (TA,) of God and of his apostle, the first word is originally أَهْل. (K, TA
ایڈورڈ ولیم لین کی عربی-انگریزی لغت "An Arabic-English Lexicon" سے لفظ اَهْل (اہل) کے بارے میں معلومات
ذیل میں لین کی لغت کی روشنی میں اس لفظ کے معنیٰ کی تفصیل پیش ہے۔
بنیادی طور پر، اَهْل (اہل) ایک وسیع المفہوم لفظ ہے جس کے معنیٰ "تعلق رکھنے" کے بنیادی خیال سے نکلتے ہیں۔یہ تعلق خاندانی بھی ہو سکتا ہے ، روحانی یا عقیدہ پر عمل پیرا ہونا بھی۔
لین کے لیکسیکون (Lane's Lexicon)کے مطابق، عربی لفظ "اہل"Ahl کے بنیادی اور وسیع معنی یہ ہیں:
People: لوگ، جماعت، یا ایک خاص گروہ۔
Family / Household: خاندان، کنبہ، گھروالے۔
Wife: (جمع میں) بیوی۔
Possessors / Followers / Those who belong to: کسی چیز کے مالک، پیروکار، یا وہ لوگ جو کسی چیز سے تعلق رکھتے ہوں۔
یہ لفظ ہمیشہ اضافت کے ساتھ استعمال ہوتا ہے (جیسے: اہل الکتاب، اہل بیت، اہل علم)، اور اس کے معنی سیاق و سباق (Context) کے لحاظ سے بدلتے رہتے ہیں۔
بنیادی اور مرکزی معنیٰ
اَهْل کا بنیادی معنیٰ "خاندان"، "گھر والے" یا "رشتہ دار" ہے۔ یہ ان لوگوں کو کہتے ہیں جو کسی شخص سے خون، شادی یا مشترکہ رہائش کے رشتے سے جڑے ہوں۔
لین وضاحت کرتے ہیں کہ اس کا بنیادی مطلب ہے:
· آدمی کے گھر والے: اس کی بیوی، بچے اور وہ لوگ جو اس کی کفالت میں ہوں۔
· آدمی کے قرابت دار یا رشتہ دار: اس کا قبیلہ یا خاندان۔
وہ بیان کرتے ہیں کہ یہ جمع کے لیے استعمال ہونے والا اسم (Collective Noun) ہے اور اس کی جمع اَهْلُونَ (اہلون) ہے۔
توسیعی اور عام استعمال
اس بنیادی معنیٰ سے نکال کر، یہ لفظ کسی خاص قسم، جگہ یا صفت سے تعلق رکھنے والے یا اس کے اہل لوگوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ عربی میں لفظ کا یہ استعمال بہت عام اور وسیع ہے۔
لین کی لغت میں دیے گئے متعدد مثالوں کو درجہ بندی کیا جا سکتا ہے:
1. کسی مقام یا جگہ کے رہنے والے:
· أَهْلُ المَدِينَة (اہل المدینہ): شہر کے لوگ۔
· أَهْلُ البَيْت (اہل البیت): گھر والے۔ (اسلام میں اس کی ایک خاص اور نہایت اہم حیثیت ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں سے مراد ہے۔)
· أَهْلُ الكُوفَة (اہل الکوفہ): کوفہ کے لوگ۔
2. کسی مذہب یا عقیدے کے ماننے والے:
· أَهْلُ الكِتَاب (اہل الکتاب): وہ لوگ جن پر آسمانی کتابیں نازل ہوئیں (یہود و نصاریٰ)۔
· أَهْلُ الإِسْلَام (اہل الاسلام): اسلام والے؛ مسلمان۔
· أَهْلُ المِلَّة (اہل الملۃ): دین والے۔
3. کسی صلاحیت، ہنر یا پیشے کے حامل لوگ:
· أَهْلُ العِلْم (اہل العلم): علم والے؛ علماء۔
· أَهْلُ اللُّغَة (اہل اللغۃ): زبان (عربی) والے؛ ماہرین لسانیات۔
· أَهْلُ الخَبْرِ (اہل الخبر): تجربہ کار لوگ؛ ماہرین۔
· أَهْلُ الصَّلَاح (اہل الصلاح): نیک لوگ۔
· أَهْلُ الجَهَالَة (اہل الجہالۃ): جاہل لوگ۔
4. "اہل / قابل / مستحق" کے طور پر:
یہ ایک اہم نحوی استعمال ہے۔جب اَهْل کے بعد مضاف الیہ آتا ہے (غالباً لِ یا أَنْ کے ساتھ)، تو اس کا مطلب "قابل"، "اہل" یا "مستحق" ہوتا ہے۔
· هُوَ أَهْلٌ لِذَلِكَ (ھو اہل لذلک): وہ اس کا اہل/قابل ہے۔
· هُوَ أَهْلٌ أَنْ يُكْرَمَ (ھو اہل ان یکرم): وہ عزت پانے کا مستحق ہے۔
اہم نحوی (گرامر) نوٹ
لین اس کے اعراب میں ایک اہم فرق بتاتے ہیں:
· جب اس کا مطلب "خاندان" یا "گھر والے" ہو، تو یہ زیادہ تر ممنوع من الصرف (Diptote) ہوتا ہے، یعنی اس پر تنوین (نون) یا کسرہ (زیر) نہیں آتی۔ لہٰذا آپ کہیں گے: هذا أَهْلُ الرَّجُل (ہذا اہل الرجل)۔
· جب اس کا مطلب "قابل" یا "اہل" ہو (جیسا کہ نقطہ 4 میں ہے)، تو یہ ایک عام اسم کی طرح (مُعْرَب) حالت بدلتا ہے اور اس پر تنوین اور اعراب آتے ہیں: هُوَ أَهْلٌ لِذَلِكَ۔
خلاصہ
بنیادی طور پر، اَهْل (اہل) ایک وسیع المفہوم لفظ ہے جس کے معنیٰ "تعلق رکھنے" کے بنیادی خیال سے نکلتے ہیں۔ اس کے معنیٰ ہو سکتے ہیں:
1. خاندان و رشتہ دار: بنیادی، لغوی معنیٰ۔
2. گروہ کے لوگ: جو مقام، مذہب یا پیشے سے وابستہ ہوں۔
3. وہ شخص جو قابل ہو: کسی خاص چیز یا عمل کے لیے اہلیت یا استحقاق کا اظہار۔
لین کی وضاحت کے مطابق معانیٰ کی یہ جامع رینج اَهْل کو عربی زبان کے اہم ترین اور سب سے زیادہ استعمال ہونے والے اسماء میں سے ایک بناتی ہے۔
#Darood #درودشریف # صلوات
Free: https://SalaamOne.com/e-Books
https://whatsapp.com/channel/0029VbAtmSV4dTnGU7MZ2e2n
SalaamOne سلام
Humanity, Religion, Culture, Tolerance, Peace
بلاگز، ویب سائٹس،سوشل میڈیا، میگزین، ویڈیوز,کتب
