Pages

Pages

The Prince by Machiavelli میکاولی کی مشہور کتاب "دی پرنس"


The Prince is sometimes claimed to be one of the first works of modern philosophy, especially modern political philosophy, in which the "effectual" truth is taken to be more important than any abstract ideal.
میکاولی اپنے وقت کا جنیئس تھا مگر اُسے شیطان کا خطاب اس لئے دیا گیا کہ اس نے سیاست میں چھپے تمام شاطرانہ داو¿ پیچ بے نقاب کر دئیے ... مزید آخر پر .....
 It is also notable for being in direct conflict with the dominant Catholic and scholastic doctrines of the time, particularly those concerning politics and ethics.

The Prince is a 16th-century political treatise written by Italian diplomat and political theorist Niccolò Machiavelli as an instruction guide for new princes and royals. The general theme of The Prince is of accepting that the aims of princes – such as :
  • Glory and survival – can justify the use of immoral means to achieve those ends.
  • Conquests by "criminal virtue" are ones in which the new prince secures his power through cruel, immoral deeds, such as the elimination of political rivals.
  • Machiavelli advises that a prince should carefully calculate all the wicked deeds he needs to do to secure his power, and then execute them all in one stroke. In this way, his subjects will slowly forget his cruel deeds and the prince can better align himself with his subjects. Princes who fail to do this, who hesitate in their ruthlessness, will have to "keep a knife by his side" and protect himself at all costs, as he can never trust himself amongst his subjects.
  • Machiavelli addressing how mercy can be misused which will harm the prince and his dominion. He ends by stating that a prince should not shrink from being cruel if it means that it will keep his subjects in line. 
  • “If an injury has to be done to a man it should be so severe that his vengeance need not be feared.”
  • More Quotes .... [...]
Machiavelli composed The Prince as a practical guide for ruling (though some scholars argue that the book was intended as a satire and essentially a guide on how not to rule). This goal is evident from the very beginning, the dedication of the book to Lorenzo de’ Medici, the ruler of Florence. The Prince is not particularly theoretical or abstract; its prose is simple and its logic straightforward. These traits underscore Machiavelli’s desire to provide practical, easily understandable advice.

The first two chapters describe the book’s scope. The Prince is concerned with autocratic regimes, not with republican regimes. The first chapter defines the various types of principalities and princes; in doing so, it constructs an outline for the rest of the book. Chapter III comprehensively describes how to maintain composite principalities—that is, principalities that are newly created or annexed from another power, so that the prince is not familiar to the people he rules. Chapter III also introduces the book’s main concerns—power politics, warcraft, and popular goodwill—in an encapsulated form.

Chapters IV through XIV constitute the heart of the book. Machiavelli offers practical advice on a variety of matters, including the advantages and disadvantages that attend various routes to power, how to acquire and hold new states, how to deal with internal insurrection, how to make alliances, and how to maintain a strong military. Implicit in these chapters are Machiavelli’s views regarding free will, human nature, and ethics, but these ideas do not manifest themselves explicitly as topics of discussion until later.

Chapters XV to XXIII focus on the qualities of the prince himself. Broadly speaking, this discussion is guided by Machiavelli’s underlying view that lofty ideals translate into bad government. This premise is especially true with respect to personal virtue. Certain virtues may be admired for their own sake, but for a prince to act in accordance with virtue is often detrimental to the state. Similarly, certain vices may be frowned upon, but vicious actions are sometimes indispensable to the good of the state. Machiavelli combines this line of reasoning with another: the theme that obtaining the goodwill of the populace is the best way to maintain power. Thus, the appearance of virtue may be more important than true virtue, which may be seen as a liability.

The final sections of The Prince link the book to a specific historical context: Italy’s disunity. Machiavelli sets down his account and explanation of the failure of past Italian rulers and concludes with an impassioned plea to the future rulers of the nation. Machiavelli asserts the belief that only Lorenzo de’ Medici, to whom the book is dedicated, can restore Italy’s honor and pride.


یورپ کا ممتاز سیاسی مفکر نکولو مکیاویلی 3 مئی 1459ء کو اٹلی کے شہر فلورنس (فیرنزے) میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ متوسط طبقے مگر اشراف کے گھرانے سے تھا اور وکالت کرتا تھا۔ مکیاویلی کا دور دراصل یورپی ممالک کی باہمی رقابت، محلاتی سازشوں اور سیاسی تبدیلیوں کا ہے۔ اس کے دور اندیش اور حساس ذہن نے ان سب کا زبردست اثر قبول کیا۔ اس نے سیاسیات پر اپنے تاثرات کو عقلیت کی کسوٹی پر پرکھ کر ریاست کے عروج و زوال کے اسباب بیان کیے اور1513ء میں (Il Principe) ’’بادشاہ‘‘ جیسی یگانہ روزگار کتاب لکھی۔
اپنی تحریروں میں مکیاویلی نظریہ جبر کا قائل نظر آتا ہے۔ وہ اس بات سے انکاری ہے کہ ریاست کا مقصد نیکی یا آذادی کا حصول ہے۔ وہ سیاسی مصلحتوں، سازشوں اور منافقت کو کامیاب ریاست کے اصول قرار دیتے ہوئے نہیں شرماتا۔ عرصے تک مکیاویلی کے نظریات اسی باعث حکمائے سیاست و کلیساء کی نفرت کا نشانہ بنے رہے۔ یورپ کی نشاۃ ثانیہ میں مکیاویلی کے بے لاگ اور تلخ حقیقتوں پر مبنی تحریروں کا بڑا ہاتھ ہے۔ دراصل اسی نے علم سیاسیات کو عملی بنیادوں پر وضع کیا۔1527ء میں اس فطین سیاسی حکیم کا فلورنس میں انتقال ہوا۔ [Wikipedia]

میکاولی اپنے وقت کا جنیئس تھا مگر اُسے شیطان کا خطاب اس لئے دیا گیا کہ اس نے سیاست میں چھپے تمام شاطرانہ داو¿ پیچ بے نقاب کر دئیے۔ اُس کا تعلق اگرچہ غریب خاندان سے تھا، تاہم جب پندرہویں صدی میں اٹلی کے مشہور میڈیچی خاندان کو زوال آیا اور وہاں ایک نئی ری پبلک قائم ہوئی تو اس کی ذہانت کو دیکھتے ہوئے حکومت کا ایک اہم عہدہ دیتے ہوئے فرسٹ سیکرٹری بنا دیا گیا۔ وہ 14 سال تک اس عہدے پر رہا اور اس نے اقتدار کی غلام گردشوں میں حکمرانوں کے لیل و نہار کو بہت قریب سے دیکھا.... پھر میڈیچی خاندان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد اسے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں تو اس نے اس عرصے میں کتاب لکھی، جس پر آنے والی کئی صدیوں تک تنقید ہوتی رہی اور آج بھی اِسے مہذب انسانیت کے لئے ایک تہمت قرار دیا جاتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس کتاب کو ناپسندیدہ قرا ردئیے جانے کے باوجود دنیا کی طرز سیاست اور حکمرانی نے اس سے گہرے اثرات قبول کئے ہیں۔ کسی نے بہت صحیح کہا ہے کہ جیسے شیطان ناپسندیدہ ہونے کے باوجود اپنے اَن گنت چیلے پیدا کرنے میں کامیاب رہتا ہے۔ اسی طرح پندرہویں صدی کا یہ جینئس میکاولی بھی رعایا پر حکمرانی کرنے والے بے شمار چیلے پیدا کرنے میں کامیاب رہا اور اِس کا ”فیضان نظر“ آج بھی جاری ہے۔
آج پاکستان میں” سیاست نہیں ریاست بچاو¿ “جیسے نعرے بھی لگ رہے ہیں، تاہم صدیوں پہلے میکاولی نے سیاست کو آرٹ کا درجہ دے کر اس میں سے مذہب اور اخلاقیات کو خارج کر دیا تھا۔ شاید اِسی حوالے سے علامہ اقبالؒ نے کہا تھا کہ دین سیاست سے نکل جائے تو باقی چنگیزی رہ جاتی ہے۔ میکاولی نے حکمرانی کے کچھ ایسے اُصول پیش کئے جن سے ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ تاہم آنے والے وقت میں حکمرانوں نے اِنہی اصولوں پر عمل پیرا ہو کر اپنے اقتدار کو دوام بخشا۔ حکمرانوں کے حوالے سے اُس کا کہنا تھا کہ اُنہیں چاہیے کہ اقتدار کو برقرار رکھنے کے لئے ہر حربہ استعمال کریں۔ چاہے وہ کتنا ہی ظالمانہ ہو۔ وہ کہتا ہے کہ حکمران اگراپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لئے ظلم اور دھوکہ دہی سے کام لیتا ہو تو برُائی یا اچھائی ثانوی چیزیں ہیں۔ اصل چیز اقتدار ہے، جسے ہر قیمت پر قائم رہنا چاہئے۔ وعدہ خلافی، دھوکہ دہی اور طاقت کے بے محابا استعمال میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ( میکاولی یہ بھی کہتا ہے کہ حکمران کیلئے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے ضروری ہے کہ حکمران عوام کو دھوکے میں رکھے اور یہ ظاہر کرے کہ وہ مذہبی آدمی ہے۔ وہ اقتدار کو قائم رکھنے اور مستحکم بنانے کے لئے مذہب کو ایک واسطے کے طور پر استعمال کرے، کیونکہ مذہب کے نام پر عوام کودھوکہ دے کر خود کو باآسانی مشکلات سے بچایا جاسکتا ہے۔
وہ کہتا ہے کہ حکمران یا بادشاہ کی ذاتی صلاحیتیں اور خوبیاں کوئی چیز نہیں ہوتیں۔ یہ صرف اس کی طاقت اور ذہانت ہے جو اس کا اقتدار برقرار رکھ سکتی ہے، اِس لئے اُسے طاقت کا بے دریغ استعمال کرنا چاہئے۔ اِس کے لئے ضروری ہے کہ وہ تمام اقسام کی سختیوں اور مظالم کو فوری طور پر نافذ کر دے۔ عوام کو مطیع اور فرمانبردار بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ہر نوع کی بے انصافیاں اور ظلم و جبر ایک ساتھ شروع کر دئیے جائیں۔ وہ حکمرانوں کو یہ مشورہ بھی دیتا ہے کہ اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے معاشرے کے معززین یا شرفاءپر انحصار کرنا کافی نہیں، کیونکہ یہ بہت چالاک اور مفاد پرست ہوتے ہیں، اُن کے برعکس عوام کو احمق اور فرمانبردار بنانا آسان ہوتا ہے، اِس لئے حکمرانوں کو عوام کا ذکر بار بار اور نجات دہندہ کے طور پر کرتے رہنا چاہئے۔ وہ اقتدار کو برقرار رکھنے کے خواہشمند حکمرانوں کو یہ مشورہ بھی دیتا ہے کہ وہ بیک وقت ایسا رویہ اختیار کریں کہ لوگ بیک وقت اُن سے خوف بھی کھائیں اور نفرت بھی نہ کریں۔ جب تک حکمرانوں کا خوف لوگوں کے دلوں پر قائم رہتا ہے، اُن کے اقتدار کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا۔ انسان کی فطرت ہے کہ وہ بغاوت کا جذبہ رکھتا ہے، اِس لئے بغاوت کے اِس جذبے کو سختی سے کچل دینا چاہئے۔
پھر وہ ایک اور دلچسپ حقیقت بیان کرتا ہے۔ اُس کے خیال میں کامیاب حکمران کے لئے ضروری ہے کہ ُاس میں شیر اور لومڑی کی صفات بیک وقت موجود ہوں، کیونکہ شیر اپنے آپ کو پھندے اور جال سے بچانے کا گُر نہیں جانتا، جبکہ لومڑی خود کو بھیڑیوں سے نہیں بچا سکتی۔ اِس لئے حکمرانوں میں ایک خوبی تو لومڑی کی ہونی چاہئے کہ وہ خود کو سازشوں اور چالوں سے بچا سکے اور دوسری خوبی شیر کی ہونی چاہئے کہ وہ بھیڑیوں کو خوفزدہ کر سکے، جو حکمران خود کو صرف شیر سمجھنے لگتے ہیں ،وہ تادیر حکمرانی نہیں کر سکتے، لومڑی کی چالاکی بھی اقتدار کے دوام کے لئے ضروری ہے۔ ایک حکمران کے لئے اس وقت ایماندار اور مذہبی ہونا ضروری نہیں، جب مذہب اور دیانتداری اِس کے مفاد میں نہ جاتی ہو، لیکن اگر ایمانداری اور امن پسندی کا ڈھونگ اس کے مفاد میں ہو تو اسے یہ ڈھونگ ضرور رچانا چاہئے۔ وہ کہتا ہے کہ ایسا حکمران کبھی اپنا اقتدار قائم نہیں رکھ سکتا جو خود ہی اعتراف کرے کہ وہ عوام سے کئے گئے وعدے پورے نہیں کر سکا۔ وعدہ شکنی بھی اہل اقتدار کی ایک خوبی تصور ہوتی ہے۔
حکمران کو اپنے اصل ارادے اور منصوبے کو پوشیدہ رکھنا چاہئے۔ عوام بہت معصوم اور سیدھے سادے ہوتے ہیں، وہ آسانی سے دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ اِس لئے جب تک حکمران انہیں چالاکی اور ہوشیاری سے دھوکہ دیتا رہے ،وہ فریب کھاتے رہتے ہیں۔ میکاولی حکمرانوں کو یہ بھی بتاتا ہے کہ عوام کی اکثریت اپنے حکمرانوں کو صرف دور سے دیکھتی ہے، انہیں چُھو نہیں سکتی، اِس لئے حکمرانوں کو اپنا گیٹ اپ ایسا بنانا چاہئے کہ وہ سراپا رحم دل اور پاکباز نظر آئیں، اندرخانے چاہے جو کچھ کرتے رہیں۔
اقتدار کے خواہش مندوں کو رموزِ حکمرانی سکھانے والے پندرہویں صدی کے اس جینئس شیطان میکاولی کی کتاب ”پرنس“ نے دُنیائے سیاست اور نظریہءحکمرانی پر اَنمٹ اثرات مرتب کئے۔ اگرچہ یہ کتاب اُس کی زندگی میں شائع نہ ہو سکی، تاہم مرنے کے بعد اُسے ایک نئی زندگی دے گئی۔ لذتِ حکمرانی سے سرفراز ہونے والوں کی اکثریت اُس کی پیروکار بن گئی۔ خاص طور پر تیسری دُنیا کے حکمرانوں نے میکاولی کو اپنا امام تسلیم کر کے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے ہر وہ حربہ آزمایا جو اُس نے پرنس میں بیان کیا تھا۔

جہاں تک پاکستان کی تاریخ کا تعلق ہے تو حیرت سے دانتوں میں اُنگلیاں دبانے کی نوبت آجاتی ہے۔ اُف اس قدر مماثلت، اگر آج میکاولی زندہ ہوتا تو پاکستان کی 65 سالہ تاریخ پر ایک نئی کتاب ضرور لکھتا،جس میں بتاتا کہ اُس نے ”پرنس“ میں کامیاب حکمرانی کے جو سنہری اُصول پیش کئے تھے، اُنہیں پاکستان میں اِس خوبصورتی سے اپنایا گیا ہے کہ پاکستان ”پرنس“ کا عملی ماڈل نظر آتا ہے۔
 پاکستان میں میکاولی کے تصورِ حکمرانی اور تصور سیاست کا ڈنکا کچھ اِس زور سے بجا ہے کہ دونوں لازم و ملزوم ہو کر رہ گئے ہیں۔
 وطنِ عزیز میں ایک طرف معصوم، بھولے بھالے اور لائی لگ عوام نظر آتے ہیں اور دوسری طرف سیانا، شاطر اور اختیارات سے لیس طبقہ جو بیک وقت شیر اور لومٹری کی خصوصیات کا حامل ہے اور جس نے بڑی چالاکی سے عوام کو ہمیشہ دیوار کے ساتھ لگا کر میکاولی کے ”پرنس“ میں پائی جانے والی رعایا بنائے رکھا ہے جو آئین کی 62،63 شق کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے اور اِسے جمہوریت کے خلاف سازش قرار دیتا ہے جو عوام کا روز و شب دم تو بھرتا ہے ، لیکن اُنہیں حقوق دینے کی راہ میں رکاوٹیں بھی کھڑی کرتا ہے۔ اِس بار حالات کچھ ایسا رُخ اختیار کر رہے ہیں کہ میکاولی کے پرنسوں کو بات بگڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ عوام کے سامنے کئی پرنس بے نقاب ہو چکے ہیں اور بہت سوں کو یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ بدلے ہوئے حالات میں وہ کیا منہ لے کر عوام کے سامنے جائیں گے....؟ کہتے ہیں کہ بارہ سال بعد تو روڑی کی بھی سنی جاتی ہے ،جبکہ پاکستانی عوام کو تو 65 سال ہوگئے ہیں، اُس صبح کا انتظار کرتے، جس کا خواب اُن کے آباو¿ اجداد نے دیکھا تھا۔ عوام کو چاہیے کہ میکاولی کے پیروکاروں کو پہچانیں اوراُن کی چکنی چپڑی باتوں میں نہ آئیں۔ سیاستدانوں کو بھی اب یہ علم ہوجانا چاہئے کہ شیر اور لومڑی کے اشتراک سے کھیلا جانے والا کھیل عوام کو بغاوت پر اُکساتا ہے۔ وہ بغاوت کہ جو کاخِ امراءکے در و دیوار ہلا دیتی ہے۔  [نسیم شاہد ]